Breaking

Post Top Ad

Your Ad Spot

Sultan Sarang Khan Gakharسلطان سارنگ خان

سلطان سارنگ خان 

 قارئین کرام شیر شاہ سوری کا نام تو یقیناََ آپ نے سُن ہی رکھا ہوگا جس نے مغلشہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کرریاستِ ہندوستان میں افغان حکومت کا سنگِ بنیاد رکھا تھا، شیر شاہ سوری بہت قابل حکمران تھا اُس نے حکمران بنتے ہی جرنیلی سڑک کو پختہ کروایا (واضح رہے کہ راستہ قبل مسیح سے موجود تھا، شیرشاہ سوری نے اُس راستے کو پختہ کراکر گھوڑا گاڑیوں کا راستہ بنوایا) تاکہ اُس کی فوج اور عوام الناس کو سفر کرنے میں آسانی ہو اور اُسکی ریاستوں میں زمینی سفر کی مسافت کم ہوسکے، جرنیلی سڑک کے کنارے برگد کے درخت لگوائے (جو آجکل ہمارے سرکاری محکمے کسی نہ کسی بہانے بیچ کر کھا جاتے ہیں)، ڈاک کا نظام بنوایا سرائے بنوائے وغیرہ وغیرہ اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے بہت سے قبائل پر لشکر کشی کی، کچھ کو ڈرا کر اور کچھ کو دولت جاگیر اور سرداری کا لالچ دے کر اپنا مطیع و وفادار بنایا، لیکن ہم آپکو آج ایک ایسے قبیلے کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جس کے خلاف نبرد آزما ہندوستان کے طاقتور ترین حکمران، بہترین فوج اور ہتھیاروں سے مزین شیرشاہ سوری کو دانتوں تلے پسینہ آگیا تھا،جی ہاں یہ کوئی اور نہیں سرزمینِ پوٹھوہار کے گکھڑ حکمران تھے جن کی اولاد آج بھی اپنے اجداد کے کارہائے نمایاں پر فخر و انبساط کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ 
شیرشاہ سوری نے جب اقتدار سنبھالا تو مغلوں سے جاگیریں لینے والے اور وفاداری کے عہد و پیماں کرنے والے بڑے بڑے نواب، راجے مہاراجے ہوا کا رُخ دیکتھے ہوئے شیرشاہ کے زیر سایہ آگئے، مگر پوٹھوہار کے گکھڑ سردار سلطان سارنگ خان نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہمایوں کو قلعہ پھروالہ میں پناہ دی اور شیرشاہ سوری کو ایک ترکش جس میں ایک ٹوٹا ہوا تیر تھا اور شیر کے ۲ بچے بھجوائے اور ساتھ رقعہ بھیجا جس میں تحریر تھا کہ شیر شاہ نام رکھ لینے سے کوئی شیر بن نہیں جاتا، شیر کے ان بچوں کی فطرت کا مبالعہ کرو شاید تم شیر بن سکو، یہ ٹوٹا ہوا تیر بطور علامت بھیج رہا ہوں کہ جب تک ہمارے ترکش میں یہ ٹوٹا ہوا تیر بھی باقی ہوگا ہم مغلوںسے حقِ دوستی نبھاتے ہوئے تم سے جنگ کریں گے چناچہ

 شیرشاہ اپنی بھاری سپاہ لے کر بھیرہ کے مقام پر آپہنچاور گکھڑوں کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ ہمایوں کو اُس کے حوالے کر دیں تو وہ کابل سے لے کر دہلی تک کا علاقہ اُن کی علمداری میں دے دے گا، مگر گکھڑوں نے اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ہمایوں کو بحفاظت سندھ (تھر) کے ہندو راجپوتوں تک پہنچا دیا جنھوں نے ہمایوں کو ایران پہنچا دیا،شیرشاہ گکھڑوں سے بخوبی واقف تھا اور گکھڑوں کا یہ جواب اُس کی توقع کے عین مطابق تھا، چناچہ اُس نے اپنے بیٹے (لے پالک) اور جرنیل خواص خان کو گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے متعین کیا اور ایک مضبوظ قلعہ بنانے کا حکم دیا، خواص خان نے جہلم کے مقام پر رہتاس قلعہ کی تعمیر شروع کی تو اُسے بے پناہ مشکات کا سامنا رہا کہ گکھڑوں کے ڈر سے اُسے مقامی مزدور دستیاب نہ ہوسکے، تب اُس نے خزانہ کا منہ کھول دیا اور ہر پتھر کے بدلے ایک اشرفی دی جانے لگی تو ہندوستان کے طول و عرض سے مزدور یہاں آنے لگے،دن کو وہ قلعہ تعمیر کرتے اور رات کو گکھڑ دیواریں مسمار کر جاتے، لیکن بلا آخر قلعہ تعمیر ہوگیا اور یہاں فوج کی بھاری تعداد متعین کردی گئی اور گکھڑوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی شروع کردی گئی،۷۱ معرکوں کے بعد جہلم سے افغان افواج کو روات تک پہنچنا نصیب ہوا جہاں گکھڑوں کا مشہور قلعہ روات آج بھی جرنیلی سڑک کے کنارے موجود ہے، یہاں پہنچ کر بھی افغانوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا، کہ گکھڑ جو کہ تعداد میں انتہائی معمولی تھے قلعہ بند ہوگئے اور افغانوں کے خلاٖ گوریلا کاروائیاں شروع کر دی، افغانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کے گکھڑ انسان نہیں کوئی ہوائی مخلوق ہیں جو اتنی بڑی فوج کے قابو میں نہیں آرہے، افغانوں کی اس بدلی پر خواص خان نے جان لیا کہ اب گکھڑوں پر فوج کشی کے زریعے قابو کرنا ممکن نہیں رہا اور ایسا نہ ہو کہ فوج راہِ فرار اختیار کرے چناچہ اُس کے حکم پر قلعہ روات کو چاروں اطراف سے بارود سے اُڑا دیا گیا، سلطان سارنگ خان اس جنگ میں اپنے ۶۱ بیٹوں کے ساتھ شہید ہوگیا، اُس نے اپنی جان دے دی لیکن اپنی وفا کا سودا نہ کیا ]واضع رہے کہ یہ افغان انسانیت سے عاری تھے سلطان سارنگ زندہ گرفتار ہوا تھا جسکی زندہ کھال اتار کر انتہائی اذیت ناک طریقے سے شہید کیا گیا تھا[، یہی وجہ ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن اپنی کتاب ”سندھ داگر“ میں رقمطراز ہیں کہ ”پنجاب کی تاریخ کے ۲ ہی ہیرو ہیں ایک دُلا بھٹی اور دوسرا سلطان سارنگ خان گکھڑ“، واضح رہے کہ اس امر کے باوجود شیرشاہ سوری گکھڑوں کی شورش دبانے میں ناکام رہا اُس کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی، اور اُس کی وفات کے بعد بھی گکھڑوں نے افغانوں کو چین نہ لینے دیا،تاوقتیکہ ہمایوں ہندوستان سے لشکر تیار کر کہ واپس آیا تو اُس نے سلطان سارنگ کے بھائی سلطان آدم خان کے فرمائش پر اُسے رہتاس کی مہم پر روانہ کیا، افغانوں کر جب پتا چلا کہ سلطان سارنگ خان کا بھائی سلطان آدم خان اب اس مہم کی قیادت کررہا ہے تو وہ رہتاس سے ککر ککر (گکھڑ گکھڑ) پکارتے فرار ہوگئے

 اور قلعہ رہتاس ایک بھی تیر چلائے بغیر فتح ہوگیا۔آکر میں روات ک و بارود سے بزدلانہ طریقے سے اُڑا دینے والے جرنیل خواص خان کا مختصر احوال، شیرشاہ کا لاڈلا خواص خان سلیم شاہ سوری کا انتہائی ناپسندیدہ تھا چناچہ بادشاہ بنتے ہی اُس نے کچھ آدمیوں کو اُسے قتل کرنے کے لئے روانہ کیا، جو سہیل گیٹ میں گھات لگا کر بیٹھ گئے اور موقعہ ملتے ہی اُسے قتل کردیا۔ 
تحریرمحمد فرحان خالد کیانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages